تحریر: انجینئر زوہیب اکرم :

آجکل میراے آپ کے بلکہ ہم سب کے پسندیدہ ٹاپکس کیا ہیں یہی نا کہ زرداری ایسا ، راجہ پرویز اشرف ویسا ، رحمن ملک استعفی دے ، خادم اعلی نوٹنکی ، مولوی نا اہل ، عمران خان جذباتی ،الطاف بھائی برطانوی شہری ، فوج امریکن ، ایجنسیاں بھاڑے کی ۔ جہاں دیکھو یہی بحث چل رہی ہے ۔ جس کو دیکھو اپنی ذاتی “ٹسل” گورنمنٹ پر نکال رہا ہوتا ہے فیس بک یوٹیوب ، ای میل ایس ایم ایس ان کو تو ہم نے انصاف کی زنجیر سمجھ لیا ہے ۔ کہ جتنا ہلائیں گے انصاف اتنی جلدی اور آسانی سے ملے گا۔

کسی کے نمبر میٹرک میں کم آجائیں تو بورڈ آفس کرپٹ ہے ، انٹر میڈیٹ میں سپلی لگ جائے [حالانکہ اگر دیکھا جائے تو سپلی نصیب والوں کو ملتی ہے ورنہ تو ہر دوسرا بندہ پاس ہوجاتا ہے ] خیر تو میں کہہ رہا تھا کہ انٹر میں کمپیوٹر سائنس رکھی ہو ، پری انجینئرنگ رکھی ہو یا پری میڈیکل یا چلو کامرس ۔ اگر کسی میں بھی کوئی سپلی آجائے تو کورس بے تکا نظام کرپٹ۔ سسٹم کی ایسی کی تیسی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اور رہی ہماری صنف نازک یہ تو نمبر کم آنے پر ہی لو بلڈ پریشر جیسی لو کیلیبر بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں کبھی کوئی کہتا ہے پڑھایا سہی نہیں گیا ، کبھی کوئی لوڈ شیڈنگ کو الزام دیتا ہے ۔

مانا کہ یہ سب مسئلے اپنی جگہ ہیں اور کافی زیادہ ہیں ۔ خود میں بھی اکثر ملامت پر مبنی بلاگز لکھ رہا ہوتا ہوں [ریٹنگز تو ہر کسی کی ضرورت ہوتی ہےنا ]

ہر چھوٹا بڑا الزام بڑے لوگوں پر ڈال کر خوش ہوجاتا تھا کہ چلو میں تو فرشتہ ہوں سارا قصور تو حکمرانوں کا ہے میں اور ہمارا متوسط طبقہ تو بہت شریف ایماندار ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

میں آج اس بلاگ ک ذریعے یہ پوچھنا چاہتا ہوں ، کہ یہ جو بغیر کسی لسٹ کے ہمارے ہاں کھانے پینے کی چیزیں خصوصا رمضان میں مہنگی ہوجاتی ہیں ، بسوں کے کرائے بڑھ جاتے ہیں لسٹ پٹرول کی قیمت بڑھنے پر ا ور جب پٹرول کی قیمت کم ہو تب کرائے اتنے ہی رہتے ہیں کم نہیں ہوتے ، چھ روپے کا سموسہ رمضان میں آٹھ روپے کا ہو جاتا ہے ۔ فروٹ سفیدپوشوں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ، تو یہ کون کرتا ہے ؟ عوام یا حکمرا ن ۔ ؟