ہم ایک دفعہ پھر میدان حشرمیں کھڑے تھے۔ بچوں سے متعلق ناعمہ کا سوال میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میں نے صالح سے کہا:

’’میں اپنے ان دونوں بچو ںسے ملنا چاہتا ہوں جو یہاں موجود ہیں۔‘‘

’’اس کا مطلب ہے کہ تم ذہنی طور پران دونوں سے ان کے برے حال میں ملنے کے لیے تیار ہوچکے ہو۔‘‘

’’ہاں شاید میں پہلے خود میں یہ حوصلہ نہیں پارہا تھا۔ میرے لیے تو اپنے استاد کا صدمہ بہت تھا۔ پھر اپنی بہو ھما کو برے حال میں دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ مگر اب مجھے اندازہ ہوچکا ہے کہ ناگزیر کا سامنا کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘‘

’’ہاں ابھی حشر کا دن ہے۔ یہ صرف جنت میں جانے کے بعد ہی ہوگا کہ انسان کے لیے ہر صدمہ اور ہرخوف و حزن ختم ہوجائے گا۔‘‘، صالح نے مجھ پر طاری ہونے والے غم کی توجیہ کی۔

’’یہی تعبیر قرآن پاک میں جنت کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ وہ جگہ جہاں ماضی کا کوئی پچھتاوہ ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔‘‘، میںنے اس کی تائید میں قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا۔ جواب میں صالح نے ایک اور بہت اہم بات کو واضح کرتے ہوئے کہا:

’’ہاں جنت ایسی ہی جگہ ہے۔ حساب جب شروع ہوگا تو جنت و جہنم کو قریب لے آیا جائے گا۔ ہر شخص کی جنت یا جہنم کا جب فیصلہ ہوگا تو اسی وقت اس کو یہ بھی بتادیا جائے گا کہ اسے کیا نہیں ملا۔ یعنی اسے کس عذاب سے بچالیا گیا یا کس نعمت سے محروم کردیا گیا ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘، میری آنکھوں میں تفصیل جاننے کی خواہش تھی۔

’’مطلب یہ کہ ایک شخص کے بارے میں اگر جنت کا فیصلہ ہوا تو اسی وقت اسے یہ بھی بتایا جائے گا کہ جہنم میں اس شخص کا ممکنہ ٹھکانہ کیا تھا، جس سے اسے بچالیا گیا ہے۔ اسی طرح فیصلہ اگر جہنم کا ہوا تو اس مجرم کو یہ بھی بتادیا جائے گا کہ جنت میں اس کا ممکنہ طور پر کیا مقام محفوظ تھا جو اس نے اپنی بداعمالیوں سے ضایع کردیا۔‘‘

’’یہ تو خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑا عذاب ہوگا۔‘‘

’’ہاں اہل جنت کے لیے سب سے بڑی اور پہلی خوشی اس جہنم سے بچنا ہوگی اور اہل جہنم کے لیے سب سے پہلا عذاب یہ پچھتاوہ کہ کس اعلیٰ نعمت اور عظیم درجے سے وہ ابدی طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ تمھیں کچھ دیر قبل بیان کردہ میری یہ بات یاد ہوگی کہ جس انسان نے روز ازل اپنے لیے جنت میں ترقی کا جتنا بڑا امکان چاہا، اس نے جہنم کے بھی اتنے ہی زیادہ پست مقام کا خطرہ مول لے لیا تھا۔ سو آج اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنت میں اعلیٰ مقام ملنے کی مسرت کے ہمراہ جہنم میں سخت ترین عذاب سے بچنے کی نوید بھی ملے گی اور جہنم میں پست ترین مقام کی مصیبت کے ساتھ جنت کے اعلیٰ ترین درجات سے محرومی کی حسرت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوگی۔‘‘

’’میرے خدایا!‘‘، میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔

ہم یہ گفتگو کررہے تھے اور آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے۔ حشر کے احوال ابھی تک وہی تھے یا شاید کچھ سخت تر ہوچکے تھے۔ وہی رونا پیٹنا۔ وہی پریشانی و بدحالی۔ وہی حسرت و ندامت۔ وہی اضطراب و بے چینی۔ وہی حزن و مایوسی۔ ہر چہرے پر سوال تھا، مگر جواب کہیں نہیں تھا۔ ہر چہرے پر اضمحلال تھا، مگر سکون کہیں نہیں تھا۔ میں نے دل میں سوچا پتہ نہیں میری بیٹی اور بیٹے پر کیا بیت رہی ہوگی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسی میدان میں ایک جگہ دو لڑکیاں پتھریلی زمین پر بے یار و مددگار بیٹھی ہوئی تھیں۔ دونوں کی آنکھیں بری طرح سوج رہی تھیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ روتے روتے ان کی یہ حالت ہوچکی ہے۔ نڈھال جسم، پریشان چہرہ اور پژمردہ آنکھیں۔ ان کے دکھ کی کہانی ان کے چہرے پر دور سے پڑھی جاسکتی تھی۔ ان میں سے ایک زیادہ بدحال لڑکی دوسری سے کہنے لگی:

’’لیلیٰ! مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ سب کچھ سچ ہے۔ انسان موت کے بعد دوبارہ اس طرح زندہ ہوسکتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کے بعد ایک نئی دنیا شروع ہوسکتی ہے۔ نہیں۔ ۔ ۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ کاش یہ ایک بھیانک خواب ہو۔ کاش میری آنکھ کھلے اور میں اپنے ٹھنڈے ائیر کنڈیشنڈ بیڈ روم کے نرم و نازک بستر پر لیٹی ہوئی ہوں۔ اور پھر کالج آکر میں تمھیں بتاؤں کہ آج میں نے ایک بہت بھیانک خواب دیکھا ہے۔ ۔ ۔ کاش یہ خواب ہو۔ کاش یہ خواب ہو۔‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ بلک بلک کر رونے لگی۔

لیلیٰ نے روتی ہوئی عاصمہ سے کہا:

’’یقین کرنے نہ کرنے سے اب کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ خواب تو وہ تھا جو ہم پچھلی دنیا میں دیکھ رہے تھے۔ آنکھ تو اب کھلی ہے عاصمہ! آنکھ تو اب کھلی ہے، مگر اب آنکھ کھلنے کا کیا فائدہ؟‘‘

کچھ دیر کے لیے خاموشی چھاگئی۔ پھر لیلیٰ حسرت کے ساتھ عاصمہ سے بولی:

’’کاش میری تم سے دوستی نہ ہوتی! کاش میں تمھارے راستے پر نہ چلتی!‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ کاش میں تمھارے راستے پر چلتی تو ہم دونوں کا یہ حال نہ ہوتا۔ پتہ نہیں اب آگے کیا ہوگا۔‘‘، عاصمہ کا لہجہ بھی افسردہ تھا۔

خاموشی کے ایک وقفے کے بعد عاصمہ نے لیلیٰ سے مخاطب ہوکر کہا:

’’لیلیٰ یہ تو بتاؤ دنیا میں ہم کتنے دن رہے تھے۔‘‘

’’پتہ نہیں۔ ۔ ۔ ایک دن۔ ۔ ۔ یا دس دن۔ یا شاید بس ایک پہر۔ اس وقت تو یوں لگتا تھا کہ زندگی کبھی ختم نہ ہوگی۔ مگر اب تو سب کچھ بس ایک خواب لگتا ہے۔‘‘

’’مجھے تو اب اس خواب کی کوئی جھلک بھی یاد نہیں آرہی۔‘‘

یہ کہتے ہوئے عاصمہ ماضی کے دھندلکوں میں کھوگئی۔ شاید وہ ماضی کے ورق الٹ کر کوئی ایسا پہر ڈھونڈ رہی تھی جس کی یاد آج تسلی کا کچھ سہارا بن جاتی۔ مگر اس کی یادداشت میں کوئی ایسا پہر نہیں آیا۔ جو کچھ یاد آیا وہ خود ایک فردقراردادِ جرم کی حیثیت رکھتا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’میں آج قیامت لگ رہی ہوں نا۔‘‘

عاصمہ نے ایک ادا سے جسم کو لہرایا اور کسی ماڈل کے انداز میں دو قدم چل کر لیلیٰ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ لیلیٰ اپنی درسگاہ کے احاطے میں درختوں کے سائے تلے بچھائی گئی ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی جوس پی رہی تھی اور اس کے سامنے اس کی عزیز سہیلی عاصمہ لہراتی بل کھاتی اپنے نئے کپڑوں کی نمائش کررہی تھی۔ لیلیٰ خاموش رہی تو عاصمہ نے دوبارہ کہا:

’’میں کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘

’’تم کپڑے پہن کر بھی برہنہ لگ رہی ہو۔‘‘

لیلیٰ نے بے نیازی سے جوس کا ایک سپ لیتے ہوئے اس کے لباس پر تبصرہ کیا۔

’’وہاٹ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’سچ کہہ رہی ہوں۔ یہ لان کا پرنٹ ہے تو بہت شاندار، مگر اس سے تمھارا پورا جسم جھلک رہا ہے۔ آستینیں تو تم پہننے کی عادی ویسے ہی نہیں ہو۔ مگر اس لباس میں تو بازوؤں کے ساتھ تمھارے کندھے بھی برہنہ نظر آرہے ہیں۔‘‘

’’ویل ویل میڈم! ڈونٹ کنڈم می۔ میں نے آپ کے کہنے سے یہ ایسٹرن ڈریس پہنا ہے۔ ورنہ مجھے صرف جینز اور ٹی شرٹ پسند ہے۔‘‘

’’یہ آدھی بات ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ٹائٹ جینز اور چست سلیو لیس ٹی شرٹ۔‘‘

’’اور کیا یہاں برقعہ پہن کر آؤں؟‘‘، عاصمہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

’’عاصمہ یہاں لڑکے بھی پڑھتے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘، لیلیٰ نے اسے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’سوری یہ تمھاری رائے ہے، ورنہ ذمہ داری تو ان لڑکوں کی ہے کہ اپنی نظریں جھکاکر رکھیں۔ کوئی مولوی انھیں یہ کیوں نہیں بتاتا۔‘‘

’’یقیناً یہ ان کی ذمہ داری ہے، مگر کیا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟‘‘

لیلیٰ کے اس جواب پر عاصمہ تنک کربولی :

’’کیا ہم اپنی پسند کے کپڑے بھی نہ پہنیں؟ خوبصورت بھی نظر نہ آئیں؟‘‘

’’ضرور پہنو اور ضرور خوبصورت لگو، مگر حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے۔‘‘

’’بس کرو یار۔ یہاں ایک میڈم شائستہ ہیں جو ہر وقت ایسے ہی موڈسٹی پر لیکچر دیتی رہتی ہیں اور دوسری تم ہو۔ سنو! ان کے نقش قدم پر مت چلو ورنہ ان کے جیسا ہی انجام ہوگا۔ ساری زندگی گھر بیٹھی رہ جاؤ گی موڈسٹ بن کر۔ تمھاری بھی کہیں شادی نہیں ہوگی۔‘‘

’’عاصمہ بری بات ہے۔ اتنی اچھی اور نیک ٹیچر ہیں اور تم ہو کہ ان کا مذاق اڑا رہی ہو۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تو اس میں ان کی موڈسٹی کا نہیں ہمارے معاشرے کا قصور ہے۔‘‘

’’ارے چھوڑو یار یہ فضول بحث۔ یہ دیکھو یہ جو لان کا پرنٹ میں نے پہنا ہے وہ سپر ماڈل ایکٹریس چمپا نے لانچ کیا ہے اور اس کا ڈیرائنز بھی انٹرنیشنل شہرت کا مالک ہے۔ پتہ ہے ایک سوٹ بیس ہزار کا ہے۔ تم نے تو ایگزیبیشن میں جانے سے انکار کردیا تھا، مگر وہاں بڑا مزہ آیا۔ آخر میں فیشن شو بھی تھا۔ اسی میں چمپا نے یہ اسٹائل پہنا تھا جسے میں نے کاپی کیا ہے۔ تم بھی بنوالو۔‘‘

’’اور اس کے بعد میرے گھر والے مجھے گھر سے نکال دیں گے۔‘‘

’’ڈونٹ وری۔ میں تمھیں اپنے ہاں رکھ لوں گی۔ ویسے بھی تمھارے گھر والے بڑے آرتھوڈوکس ہیں۔ تمھاری امی۔ ۔ ۔ ناعمہ آنٹی ہیں تو اچھی خاتون، بس ہروقت نصیحت کرتی رہتی ہیں اور تمھارے ابا۔ ۔ ۔ عبداللہ انکل۔ ۔ ۔ وہ تو لگتا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلاکر ہی دم لیں گے۔ ایسے ہی تمھارے باقی بہن بھائی ہیں، بس ایک تمھارے بڑے بھائی جمشید ہی ڈھنگ کے ہیں۔ اسی لیے شاید تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتے۔‘‘

’’ابا تو سمجھتے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ ان سے دور ہوچکے ہیں۔ اور بقول امی کے انھوں نے مجھے بھی خراب کردیا ہے۔‘‘

’’کیا خرابی ہے تم میں۔ تم تو مجھے ویسے ہی بڑی نیک لگتی ہو۔‘‘

’’میں اور نیک؟ بس مارے باندھے بچپن کی عادت کی بنا پر روزہ نمازکرلیتی ہوں۔ باقی میں تمھارے ساتھ رہ کر تمھارے جیسے ہی کام کرتی ہوں۔‘‘

’’مگر یہ تو دیکھو کہ میرے ساتھ مزہ کتنا آتا ہے۔ پچاس برس کی زندگی ہے۔ خوب کھاؤ پیو اور انجوائے کرو۔‘‘

’’ہاں تمھارے ساتھ مزہ تو آتا ہے، مگر ابو کہتے ہیں کہ آخرت میں اگر ایک دن کے لیے بھی پکڑ ہوگئی تو وہاں کا ایک دن ہزاروں برس کا ہوتا ہے۔ اس میں پچاس سالہ زندگی کا سارا نشہ ہرن ہوجائے گا۔ ان کی تربیت سے میری امی، بہنیں اور بھائی انور سب ہی نیکی کی زندگی گزارتے ہیں۔‘‘

’’ڈونٹ ٹالک اباؤٹ دیم۔ وہ نیکی کی نہیں بوریت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس بور زندگی کے تصور سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ میں نے اسی لیے تمھارے گھر جانا اب کم کردیا ہے۔ ہر وقت جنت کی باتیں۔ ہر وقت آخرت اور نیکی کی باتیں۔ عبادت کرو، نماز پڑھو، روزہ رکھو، دوپٹہ سینے پر رکھو، سر ڈھانکو۔ آئی ڈونٹ لائک دز ربش۔‘‘

عاصمہ کی اس بات سے لیلیٰ کے چہرے پر کچھ ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے۔ وہ بولی:

’’ایسا مت کہو عاصمہ۔ میرے گھر والوں نے تم سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ بیچارے جو کرتے ہیں خود کرتے ہیں یا مجھے تلقین کرتے ہیں۔ تم سے تو کچھ نہیں کہتے۔ صرف ایک دفعہ میرے ابا نے تم سے یہ کہا تھا کہ بیٹا تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کردو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو ساتھ رہنا پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کردیا۔‘‘

’’سوری بھئی تم تو برا مان گئیں۔ لیکن دیکھو تم نے اپنے ابا کی تقریر مجھے پھر سنادی۔ ان بے چاروں کے سر پر ہر وقت قیامت سوار رہتی ہے۔‘‘

عاصمہ کے اس جملے سے لیلیٰ کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس کے تیور دیکھ کر وہ فوراً بولی:

’’سوری سوری ناراض نہ ہونا۔ اب تمھارے ابا کو کچھ نہیں کہوں گی۔ چلو کینٹین چل کر کچھ کھاتے ہیں۔ مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میدان حشر میں غضب کی گرمی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ نجانے لوگ پیاس سے زیادہ پریشان ہوں گے یا پھر اس اندیشے سے کہ کہیں انھیں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں نہ پھینک دیا جائے۔ میں اسی خیال میں تھا کہ صالح کی آواز کانوں سے ٹکرائی:

’’عبداللہ! تیار ہوجاؤ۔ میں تمھیں تمھاری بیٹی سے ملوانے لے جارہا ہوں۔‘‘

بے اختیار میں نے اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبالیا۔ ہم کچھ قدم آگے چلے تو کھردری پتھریلی سطح پر دو لڑکیاں بیٹھی نظر آئیں۔ میں دور ہی سے ان دونوں کو پہچان گیا۔ ان میں سے ایک لیلیٰ تھی۔ میری سب سے چھوٹی اور چہیتی بیٹی۔ دوسری عاصمہ تھی۔ میری بیٹی کی عزیز ترین سہیلی۔

اس وقت ماحول میں سخت ترین گرمی تھی۔ لوگوں کے بدن سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ بھوک تو پریشانی کے عالم میں اڑ چکی تھی، مگر پیاس کے عذاب نے ہر شخص کو پریشان کررکھا تھا۔ یہ دونوں بھی پیاس سے نڈھال بیٹھی تھیں۔ عاصمہ کی حالت بہت خراب تھی اور پیاس کی شدت کے مارے وہ اپنے بازو سے بہتا ہوا اپنا پسینہ چاٹ رہی تھی۔ ظاہر ہے اس سے پیاس کیا بجھتی۔ اس نے مزید بھڑکنا تھا۔ جبکہ لیلیٰ اپنا سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی۔

عاصمہ ایک بڑے دولتمند خاندان کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔ خدا نے حسن، دولت، اسٹیٹس ہر چیز سے نوازا تھا۔ ماں باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم دلوائی۔ بچپن سے اردو کی ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔ عربی اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کا اتنا اثر تھا کہ بچی انگریزی انگریزوں سے زیادہ اچھی بولتی تھی۔ مگر ایسے اسکولوں میں زبان زبان دانی کے طور پر نہیں بلکہ ایک برتر تہذیب کی غلامی کے احساس میں سیکھی جاتی ہے۔ چنانچہ زبان کے ساتھ مغربی تہذیب اپنے بیشتر لوازمات سمیت در آئی تھی۔ سلام کی جگہ ہیلو ہائے، لباس میں جینز شرٹ، انگزیزی میوزک اور فلمیں وغیرہ زندگی کا لازمہ تھے۔ تاہم عاصمہ خاندانی طور پر نودولتیے پس منظر کی نہیں بلکہ خاندانی رئیس تھی، اس لیے کم از کم ظاہر کی حد تک ایک درجہ کی تہذیب و شرافت، بڑوں کا ادب لحاظ اور رکھ رکھاؤ پایا جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے اس دوستی کو گوارا کرلیا تھا کہ شاید لیلیٰ کی صحبت سے عاصمہ بہتر ہوجائے۔

لیلیٰ سے اس کی دوستی کالج کے زمانے میں ہوئی۔ معلوم نہیں کہ دونوں کے مزاج اور کیمسٹری میں کیا چیز مشترک تھی کہ پس منظر کے اعتبار سے کافی مختلف ہونے کے باوجود کالج کی رفاقت عمر بھر کی دوستی میں بدل گئی۔ مگر بدقسمتی سے اس دوستی میں عاصمہ نے لیلیٰ کا اثر کم قبول کیا اور لیلیٰ نے اس کا اثر زیادہ قبول کرلیا۔

لیلیٰ میری بیٹی ضرور تھی، مگر بدقسمتی سے وہ میرے جیسی نہ بن سکی۔ مجھ سے زیادہ وہ اپنے سب سے بڑے بھائی، جمشید کی لاڈلی تھی۔ وہی بھائی جو میرا پہلونٹی کا بیٹا تھا اور اسی کی طرح میدان حشر میں کہیں بھٹک رہا تھا۔ ایک طرف بڑے بھائی کا لاڈ پیار اور دوسری طرف عاصمہ کی دوستی۔ یہ عاصمہ اکلوتی ہونے کے ناطے خود والدین کی لاڈلی اور ناز و نعم میں پلی بڑھی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج حشر کی اس خواری میں سے اسے اپنا حصہ وصول کرنا پڑرہا تھا۔ میرے زمانے کی بیشتر اولادوں کو ان کے والدین کے لاڈ پیارنے برباد کرکے رکھ دیا تھا۔

اولاد ہر دور میں والدین کو محبوب رہی ہے۔ میرے زمانے میں یہ عجیب سانحہ رونما ہوا تھا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے عشق میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ خود ان کے کھلونے بن گئے۔ شاید یہ کم بچوں کا اثر تھا۔ پہلے ہر گھر میں آٹھ دس بچے ہوتے تھے۔ اس لیے والدین ایک حد سے زیادہ بچوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ مگر میرے زمانے میں والدین کے دو تین ہی بچے ہوتے تھے اور ان کی زندگی کا واحد مقصد یہی بن گیا تھا کہ اولاد کے لیے سارے جہاں کی خوشیاں سمیٹ کر لادیں۔ وہ ان کے ناز نخرے اٹھاتے۔ ان کی تربیت کے لیے ان پر سختی کرنے کو برا سمجھتے۔ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کو اپنا مقصد بنالیتے۔ ان کو بہترین تعلیم دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیتے۔ یہاں تک کہ ان کے بہتر مستقبل کی خاطر ان کو دوسرے ملکوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے اور آخر کار یہ بچے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں سیٹ ہوجاتے۔ یہ نہ بھی ہو تب بھی نئی زندگی میں ماں باپ کا کردار بہت محدود تھا۔ لیکن ماں باپ اس سب کے باوجود بہت خوش تھے۔

والدین کے نزدیک دین کی بنیادوں سے بچوں کو واقف کرانے سے زیادہ اہم یہ تھا کہ بچوں کو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنا سکھادیں۔ ایمان و اخلاق کی تعلیم دینے سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ انتہائی مہنگے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم دلوادیں۔ خدا کی سچی محبت، اس کے بندوں سے محبت، انسانوں کی خدمت اور خلق خدا کی خیرخواہی کے بجائے بچے اپنے والدین سے مفاد پرستی کی تعلیم حاصل کرتے۔ بچوں کو خاندان کے بزرگوں کے بجائے ٹی وی کی تربیت گاہ کے حوالے کیا جاتا جہاں تہذیب و شرافت اور اخلاق و شائستگی کے بجائے خواہش پرستی اور مادیت پسندی کا ایک نیا سبق ہر روز پڑھایا جاتا۔ آخرت کی کامیابی کے بجائے دنیا اور اس کی کامیابی کو اہم ترین مقصد بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ خدا، دین اور آخرت بس رسمی سی باتیں تھیں۔ دینداری کی آخری حد یہ تھی کہ کسی مولوی صاحب کے ذریعے سے بچے کو قرآن مجید ناظرہ پڑھوا دیا جاتا۔ رہا اس کا مفہوم تو نہ وہ مولوی صاحب کو معلوم تھا نہ والدین کو اور نہ کبھی بچوں ہی کو معلوم ہوپاتا۔ یہ لوگ کبھی سمجھ کر پڑھ لیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ قرآن دنیا کی فلاح کے ذکر سے اتنا ہی خالی ہے جتنا ان کی زندگیاں آخرت کے تذکرے سے۔ اس کا سبب پچھلی دنیا میں کسی کی سمجھ میں آیا ہو یا نہیں، آج بالکل واضح تھا۔ جو دنیا میں گزاری وہ تو زندگی تھی ہی نہیں۔ وہ تو محض امتحان کا پرچہ تھا یا راہ چلتے مسافر کا کسی سرائے میں گزارا ہوا ایک پہر۔ زندگی تو یہ تھی جو ختم نہ ہونے والی ایک انتہائی تلخ حقیقت بن کر آج سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم ذرا قریب پہنچے تو عاصمہ کی نظر مجھ پر پڑی۔ اس نے لیلیٰ کو ٹہوکا دیا۔ لیلیٰ نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔ اس کی نظر میری نظر سے چار ہوئی۔ ان آنکھوں میں ایسی بے بسی، وحشت اور دکھ تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ اٹھی۔ ۔ ۔ بھاگ کر مجھ سے لپٹ گئی اور پوری قوت سے رونے لگی۔ اس کی زبان سے ابو ۔ ۔ ۔ ابو کے سوا کچھ اور نہیں نکل رہا تھا۔ میں بڑی مشکل سے خود پر ضبط کررہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ اگر روتی رہی تو کہیں میرے ضبط کا بند بھی میرا ساتھ نہ چھوڑ دے۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرکر کہا:

’’بیٹا چپ ہوجا۔ میں نے تجھے بہت سمجھایا تھا نا۔ اس دن کے لیے جینا سیکھو۔ دنیا سوائے ایک فریب کے اور کچھ نہیں۔‘‘

’’ہاں آپ ٹھیک کہتے تھے۔ مگر میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔‘‘، یہ کہتے ہوئے اس کی سسکیوں کی آواز اور بلند ہوگئی۔

وہ میرے سینے سے لگی ہوئی تھی اور میری نظروں کے سامنے سے اس کی پیدائش، بچپن، لڑکپن، جوانی اور زندگی بھر کے تمام مراحل کی تصویریں گزر رہی تھیں۔ کبھی بستر پر پڑی ہوئی وہ گڑیا جس کے رونے سے میں بے چین ہوجایا کرتا تھا۔ کبھی فراک پہنی ہوئی وہ پری جس کی ایک ایک ادا پر میں جان نثار کرتا تھا۔ کبھی اسکول کے یونیفارم میں بیگ لٹکائے وہ معصوم سی کلی، کبھی کالج کے یونیفارم میں پھولوں جیسی وہ بچی اور کبھی شادی کے جوڑے میں سجی میرے دل کا وہ ٹکڑا جو اس وقت سراپا حسرت و یاس کی صورت بنے میرے سینے سے لگی تڑپ رہی تھی۔

مجھے لگا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر خود سے دور کردیا اور اپنا سر پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ لیلیٰ سسکتی ہوئی آواز میں بولی:

’’مجھے اپنے گھر والوں میں سے یہاں اور کوئی نہیں ملا، نہ شوہر نہ بچے، نہ آپ لوگوں میں سے کوئی ملا، سوائے بھیا کے۔ ان کی حالت بہت خراب ہے ابو! وہ بہت بے قراری سے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہیں بس آپ ہی سے امید ہے۔‘‘

میں نے لیلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا:

’’اس احمق نے دنیا میں بھی غلط امیدیں باندھی تھیں اور اب بھی غلط امید باندھ رہا ہے۔ دنیا میں اسے اپنے کاروبار، بیوی اور بچوں سے ساری امیدیں تھیں۔ اس کا نتیجہ وہ اب بھگت رہا ہے۔ اور اب وہ مجھ سے امید لگارہا ہے۔ حالانکہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘

اتنے میں عاصمہ بھی ہمارے قریب آکر کھڑی ہوچکی تھی۔ میری آخری بات سن کر وہ بولی:

’’انکل مجھے تو ساری امید آپ سے تھی۔ لیکن اب آپ بھی ناامید کررہے ہیں۔‘‘

’’تمھیں یاد ہے عاصمہ! جب تم لیلیٰ کے ساتھ پہلی دفعہ میرے گھر آئیں تھی تو میں نے تم سے کیا کہا تھا۔‘‘

’’مجھے یاد ہے ابو آپ نے اس سے کیا کہا تھا۔‘‘، عاصمہ کی جگہ لیلیٰ نے جواب دیا۔

’’آپ نے کہا تھا کہ بیٹا تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کردو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو ساتھ رہنا پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کردیا۔‘‘

آخری جملہ کہتے ہوئے لیلیٰ پھر رونے لگی۔ اس کے ساتھ عاصمہ بھی سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے گردن گھماکر صالح کو دیکھا جو اس عرصے میں خاموش کھڑا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ کوئی امید افزا بات کہہ سکے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ کہنے لگا:

’’عبد اللہ! ویسے تو ہر فرد کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کا عمل اگر رائی کے دانے کے برابر تھا تب بھی اس کے نامۂ اعمال میں موجود ہوگا۔ ہر عمل کو آج پرکھا جائے گا۔ نیت، اسباب، محرکات، حالات، عمل اور اس کے نتائج، ایک ایک چیز کی جانچ ہوگی۔ فرشتے، در و دیوار، اعضا و جوارح ہر چیز گواہ بن جائے گی۔ یہاں تک کہ یہ بالکل متعین ہوجائے گا کہ ہر اچھا برا عمل کس جزا یا سزا کا مستحق ہے۔ نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک، صبر اور نصرت دین کے لیے کئے گئے کاموں کا بدلہ بے حد و حساب دیا جائے گا۔ جبکہ بدی کا بدلہ اتنا ہی ہوگا جتنی بدی کی ہوگی۔ البتہ شرک، قتل، زنا جیسے جرائم اگر نامۂ اعمال میں آگئے تو انسان کو تباہ کردیں گے۔ جبکہ مال یتیم کھانا، وراثت کا مال ہڑپ کرنا، تہمت لگانا وغیرہ جرائم اتنے خطرناک ہیں کہ ساری نیکیوں کو کھاکر انسان کو جہنم میں پہنچاسکتے ہیں۔

یہ سزا جزا کے عمومی ضابطے ہیں۔ ان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کریں گے۔ اور یقین رکھو کہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوگا۔ تمھاری اولاد کے حوالے سے واحد امید افزا بات جو میں تمھیں پہلے ہی بتاچکا ہوں وہ یہ ہے کہ تمھارے جیسے سابقین کے علاوہ آج کے دن حساب کتاب کے ذریعے سے سچے اہل ایمان کی نجات کا معاملہ جلد یا بدیر ہوجائے گا۔ البتہ تم اپنی اولاد کو مجھ سے بہتر جانتے ہو کہ ان کی نجات کا امکان کتنا ہے۔‘‘

’’مجھے زیادہ پریشانی اپنے بیٹے کی ہے۔‘‘، میں نے جواب دیا۔

اس جواب میں میرے سارے اندازے، امیدیں اور اندیشے جمع تھے۔ میں نے مزید تبصرہ کیا:

’’اسے پیسے کمانے، گاڑی، بنگلے اور دولت مند بننے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق جس کو لگ جائے، اسے کسی بھی برے حال میں پہنچاسکتا ہے۔ اس کے بعد اکثر لوگ حلال حرام اور اچھے برے کی تمیز کھوبیٹھتے ہیں۔اگر کسب حرام سے بچ بھی جائیں تو اسراف، غفلت، نمود و نمائش، بخل، تکبر اور حق تلفی جیسی برائیاں انسان کو احتساب الٰہی کی اس عدالت میں لاکھڑا کرتے ہیں جہاں نجات بہت مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘

میری اس بات کا جواب غیر متوقع طور پر عاصمہ نے دیا:

’’یہ ساری باتیں لیلیٰ مجھے بتاتی تھی۔ اس نے آپ کی کچھ کتابیں بھی مجھے پڑھنے کے لیے دی تھیں۔ مگر مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی۔ میری بدقسمتی کہ میری ساری زندگی غفلت، دنیا پرستی، فیشن، نمود و نمائش، اسراف اور تکبر میں گزرگئی۔ مجھ پر حسین نظر آنے کا خبط سوار تھا۔ میں نے لاکھوں روپے زیور، کپڑوں اور کاسمیٹکس میں برباد کردیے۔ مگر غریبوں پر میں کبھی کچھ نہ خرچ کرسکی۔ کبھی کیا بھی تو اس کو بہت بڑا احسان سمجھا۔ حالانکہ اللہ نے ہمیں بہت مال و دولت عطا کیا تھا۔

یہی نہیں مجھے جب غصہ آتا تھا تو میں بے دریغ اسے کمزور لوگوںپراتارتی تھی۔ باحیا لباس پہننا میرے نزدیک غربت کی علامت تھی۔ چغلیاں، غیبت، عیب جوئی میرے لیے معمولی باتیں تھیں۔ یہ معمولی باتیں آج اتنا بڑا روگ بن جائیں گی مجھے نہیں معلوم تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔‘‘

یہ کہہ کر ایک دفعہ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لیلیٰ افسردہ لہجے میں بولی:

’’اس کے امی ابو بہت برے حال میں ہم سے ملے ہیں۔ ان کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوگا۔‘‘

پھر وہ مجھے دیکھ کر بولی:

’’ابو میرے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

’’بیٹا انتظار کرو۔ امید یہ ہے کہ اب زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ اس وقت مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اتنی سختی اٹھانے کے بعد وہ تمھارے وہ گناہ معاف کردے گا جو تم نے دنیا میں معمولی سمجھ کر کیے تھے۔‘‘

’’کاش ابو! میں آپ کا راستہ اختیار کرلیتی۔ آپ نے مجھے بہت سمجھایا تھا کہ ایمان زبان سے کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں، خدا کی ہستی کو اپنی زندگی بنالینے کا نام ہے۔ رسمی عبادت خدا کو مطلوب نہیں۔ اسے قلب کی دینداری چاہیے۔ اسے چند بے روح سجدوں کی ضرورت نہیں، ایک سچا خدا پرست بندہ چاہیے۔ ایمان میری زندگی میںتو تھا، مگر وہ میری شخصیت کا احاطہ نہ کرسکا۔ میں نے آپ کے کہنے سے نمازیں تو پڑھیں، مگر خدا کی یاد میری زندگی نہیں بن سکی۔ میں نے روزے تو رکھے، مگر مجھ میں سچا تقویٰ پیدا نہیں ہوسکا۔ زیادہ سے زیادہ مجھے پچاس برس وہ سب کرنا پڑتا۔ یہاں تو صدیاں گزرگئی ہیں اس گرمی اور سختی میں پریشان گھومتے گھومتے۔‘‘

لیلیٰ کی بات سن کر عاصمہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سسکتے ہوئے کہا:

’’بہن تم مجھ سے تو بہتر ہو۔ میں نے تو زندگی میں نماز روزہ کچھ نہیں کیا۔ اخلاقی گناہ، نمود ونمائش، اسراف، تکبر اور حق تلفی وغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ میرا کیا ہوگا۔ مجھے تو سوائے جہنم کے کوئی انجام نظر نہیں آتا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ان دونوں کی باتوں سے میرا دل کٹ رہا تھا۔ مجھ میں اب مزید ان کے ساتھ رہنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ صالح کو میری حالت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ اس نے ان دونوں سے مخاطب ہوکر کہا:

’’عبد اللہ کو اب یہاں سے رخصت ہونا ہوگا۔ آپ دونوں یہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے لے گیا۔ میں چاہتا تھا کہ جاتے جاتے لیلیٰ کو تسلی دے دوں۔ میں پیچھے مڑا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پیچھے کا منظر بدل گیا ہے۔ ہم کسی اور جگہ کھڑے تھے۔

’’مجھے ذرا تیزی سے تمھیں وہاں سے ہٹانا پڑا۔ وگرنہ تمھیں اور دکھ ہوتا۔ کیا تم اپنے بیٹے سے ملنا چاہو گے؟‘‘

’’نہیں۔ میں مزید کچھ دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔‘‘، میں نے دو ٹوک جواب دیا۔

میرا دل افسردگی کے گہرے سمندر میں ڈوب چکا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں کسی طرح واپس دنیا میں لوٹوں اور لیلیٰ کی اصلاح کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالوں۔ مجھے احساس ہوا کہ اب یہ ممکن نہیں۔ پھر اندیشے کے ایک زہریلے سانپ نے میرے سامنے سر اٹھایا۔ میں نے صالح سے کہا:

’’صالح! کہیں لیلیٰ کے اس حال میں میرا قصور تو نہیں۔ کہیں میں تو اس کا ذمہ دار نہیں؟‘‘

’’نہیں ایسا نہیں ہے۔ دیکھو! اولاد تو نوح علیہ السلام جیسے پیغمبر کی بھی گرفت میں آئی ہے۔ مگر ذمہ داری ان کی نہیں تھی۔ انسان کا فریضہ صرف صحیح بات دوسروں تک پہنچانا ہے۔ قبول کرنے نہ کرنے کا فیصلہ ہمیشہ دوسرے کرتے ہیں۔ تمھاری بیٹی لیلیٰ نے اپنے فیصلے خود کیے تھے۔ لہٰذا تم اس کی تکلیف کے ذمہ دار نہیں ہو۔‘‘

مجھے لگا جیسے مجھ پر سے ایک بوجھ اتر گیا ہے۔ مگر اگلے ہی لمحے مجھ پر ایک دہشتناک انکشاف ہوا۔ اگر میری بیٹی کی وجہ سے میری پکڑ کی نوبت آئی تو کیا ہوگا؟ یہی نا کہ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی پیاری بیٹی کو جہنم میں جھونک کر اپنی جان بچانا پسند کروں گا۔ کیوں کہ آج کے دن کا عذاب اتنا شدید ہے کہ سارے رشتے اور تعلقات اس کے آگے ہیچ ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔